ارطغرل كا ڈھول كتنا لمبا كتنا گول

بسم الله الرحمن الرحيم
ارطغرل كا ڈھول كتنا لمبا كتنا گول
خاكسار
عبد الله الكافي المحمدي
محافظه تيماء منطقه تبوك سعودي عرب
----------------------------------
آج كا مسلمان اقوام عالم کی پٹری میں پوری طرح فٹ نہیں بیٹھ پا رہا ہے۔ جس كا دين هي قيامت تك كے لئے هر زمان ومكان  اور ظروف واحوال ميں لائق عمل، سوٹيبل، لچك دار اور بلا تكلف بجا آوري كے قابل هے۔ اسي دين كا پيرو كار آج گم كردۀ راه حيراں وپريشاں دنيا كي بھيڑ ميں اپنے آپ كو تن تنها محسوس كر رها هے۔ اس چكا چوند رنگين بھري محفل ميں بھي خود كو اكيلا پا رها هے۔  اچھوت سا بن گيا هے۔ شك كي نظريں اسي كي طرف اٹھ رهي هيں۔ جس راستے سے گزر جائے اس راستے كو مشكوك مانا جا رها هے۔ كوئي مونس وغمخوار تو كيا، اپنے گھر هي ميں بے گھر اور اجنبي هے۔
الله سے دوري وبے ديني وغيره خالص ديني وذاتي اسباب هيں۔ اسے مذكوره حالات كا ذمه دار قرار دينا  شايد بهتوں كا هاضمه خراب كر دے۔  لهذا چليں هم اس كو لاجك ميں ڈھال ليتے هيں۔  هم جب الله سے دور هوئے تو كسي كا خوف نه رها۔ اور هم نے بے خوف ونڈر هو كر وه كام كيا جس كے كرنے والے كو دنيا نگاهوں سے گرا ديتي هے۔ اسلامي تعليمات كي پامالي، آداب وحرمات كي ان ديكھي نے هميں مزيد بے دين يا بيزار بنا ديا۔  هماري عادت هےكه هم اپني ساري غلطياں دنيا كے متھے ڈال ديتے هيں۔ يهاں بھي اپنے مرض كي تشخيص نه كر كے دنيا كو ملامت كرنے بيٹھ گئے۔  البته هماري كم علمي جهالت اور حكمت وبصيرت سے عاري هونےنے بھر پور سهولت كاري كي ۔  مصلحت پرستي ايك ديو هے۔ جو بنا بلي لئے كام نهيں كرتا۔ اپنے پرستار سے اس كے دين كي بلي ليتا هے۔ پھر دنيا سے بھي اپني قيمت وصولتا هے۔ اب كي مسلمانوں كي باري هے۔ اپنوں اور  اغيار كے مصلحت پرستوں كي بلي كا بكرا مسلمان هي بنا هے۔  
در حقيقت موجوده حالات کی بنیادی وجہ جذبات کا سو جانا نهيں بلكه تربیت وتعلیم اور بصیرت وحکمت کی کمی ہے۔ ساري كائنات  كے فلاح وبهبود كا علم اس كي بيگ ميں ركھي ايك كتاب ميں هے۔ پر اسے اپنے گھر كا راسته نهيں مل رها هے۔  آج ايك مسلمان علم ومعرفت، نظم ونسق اور حکمت وبصیرت کی کمی کے سبب ہی دنیا  کا مظلوم وغير مفيد ترین جزء  بن گیا ہے۔ اس فيملي ممبر كي طرح جو بيمار هو جائے۔ گھر كے اخراجات ميں تو شريك هو مگر كما پانے كي حالت ميں نه هو۔ آج كا مسلمان بناء بر وجوه  دوسروں سے زیادہ اپنوں سے پٹا ہوا ہے۔ ہر جگہ سے اسے دھوکہ اور فریب ہی مل رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے "لا یلدغ المومن من جحر مرتین" کے بر خلاف بہت جلدی ہر کسی پر اپنا اعتماد بحال کر لیتا ہے۔ کیوں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہے۔
جس چیز سے روکا جائے اس کی جستجو بڑھ جاتی ہے۔ يهي انساني طبيعت وفطرت هے۔یہاں یہ بات قابل اعتناء نہیں کہ کس نے اس سیریل کو اچھا کہا کس نے برا، اور کس نے اس پر پابندی لگائی۔ ایک مسلمان کو اس بات سے قطعا اختلاف نهيں هوگا۔ كه صحیح یا غلط کا پیمانہ ہر حال میں کتاب وسنت ہيں۔ ہم تصاویر کی حلت وحرمت پر بات نہ بھی کریں تو اس سیریل میں پیش کی جانے والی برہنہ چهرہ خواتین اس كي قباحت کے لئے کافی ہیں۔ ویسے ہم بات اس کی بھی نہیں کر رہے ہیں۔  دعاء هے كه توقعات پوري اتريں۔ دور كا ڈھول سننے ميں اچھا ضرور هوتا هے۔ پر اتني زياده اميديں نه سجائيں كه ٹوٹيں تو چننے كے لئے كرچياں بھي نه مليں۔
شنيد هے كه اس سيريل ميں خلافت عثمانیہ کے ابتدائی ادوار کو ایموشنل انداز میں دکھایا گیا ہے۔ جس سےمسلم نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا جا سکے۔ جب كه مسلم نوجوانوں کے جذبات فی الحال اتنے بیدار ہیں کہ اس كي پيمائش محال ہے۔ مگر  يه ضائع هو رهے سارے قيمتي جذبات بلا هدف بے راه رو اور غير منظم  هيں۔ اس میں اسلامی آداب اور علم ومعرفت کی کمی ہے۔ ظاہر ہے جذبات جو اسلام سے عاری ہوں، وہ کبھی سود مند نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی آداب وتعلیمات اور نظم ونسق کے بنا وہ جذبات جذبات لگیں گے۔ اسے تو ديكھنے والے محض بے هنگم جنون يا حماقت هي سمجھيں گے۔ اسی وجہ سے کچھ بھولے بھائیوں نے اس کو جذبات کا فقدان سمجھ لیا۔ اور ان ميں جذبات كو جگانے نكل پڑے  هيں۔ جب کہ ہر قوم وجماعت، طائفہ وفرقہ، ذات ونسل اور ادیان وملل میں اس وقت جذبات کا بحر بیکراں موجزن ہے۔ ٹھاٹھیں مارتے جذبات ہی تو ہیں کہ ایک کمسن بچہ بھی اپنے مخالف کو شوقیہ لنچ کر دیتا ہے۔ دل دہلا دینے والے طریقے سے تشدد حتى كه قتل وخوں ریزی تک کر گزرتا ہے۔ یہاں آپ یہ نہ سوچیں کہ ایسا کرنے والے مسلم نہیں ہیں۔ کیوں کہ بات عام ہونی چاہئے۔ اور یہ بھی کہ بعض ایسے مسلم نوجوان کو اگر موقعہ مل جائے تو ایسا نہیں کرے گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔
لہذا آج مسلم نوجوانوں کے جذبات کو جگانے کے بجائے ان كے بيدار جذبات كو مرتب ومنظم كرنے كي ضرورت هے۔ اقوام عالم ميں اپنے تشخص كو محفوظ ركھتے هوئے اندماج وانسجام كا سليقه سمجھانے كي ضرورت هے۔ انهیں مختلف علوم وفنون كے ساتھ ساتھ صحيح تربیت دينے كي ضرورت هے۔ حکمت ودانائی اور جديد وقديم وسائل كے صحيح استعمال كا طريقه سکھانے كي ضرورت هے۔ فطری اور لچک دار اسلام کو اسی کی تعلیمات کے مطابق دنیا میں گھل مل جانے کے گر بتائے جانے كي ضرورت هے۔ تاکہ آپ کی دعوت کے راستے بھی صاف ہو جائیں۔ ورنه چاهے ان چاهے هم انھيں گليمرز سليبريٹيز اور شخصيات سے متاثر هونے پر آماده كرنے، دنیا سے ٹکرانے کے لئے بھڑکانے،  يافلموں سيريلوں ميں انھيں جھونكنے  كا سبب بنيں گے۔ جو كه كسي بھي حال ميں مناسب نهيں هے۔ اگر ايسا هوا تو جتنا حسين مستقبل كے سپنے هم ديكھ رهے هيں۔ اس سے كهيں زياده خطرناك نتائج امت كو نگلنے كے لئے سامنے كھڑے هوں گے۔
واضح رهے كه دنیا اسلام سے نہیں بلکہ مسلمان سے بد ظن ہے۔ یا اس اسلام سے جس کو ہم نے اسلام کے نام پر انهیں دکھایا ہے۔  ہم خود هي صحیح اسلام کی معرفت سے كوسوں دور هيں۔ اسلام كي حقانيت روحانيت اور حلاوت كا احساس خود هميں نهيں هے۔ اپني سوچ سمجھ كو هم نے اسلام قرار ديا هوا هے۔  مختلف شكوك وشبهات سے بھرے مجموعۀ رسومات و بگاڑ کو ہم اپنا اسلام مانتے رہے هيں۔   اسلام كے نام پر اسي معجون كو هم نے دنيا كے سامنے پيش كيا هے۔ آدھے ادھورے علم كے ساتھ مغلوط خيالات كو عالمي پليٹ فارمز ميں غير مهذب طريقے سے ركھ كر جگ هنسائي كر رهے هيں۔  کیا ہمارا خود ساخته بنایا اسلام دنیا کو لبھا سکتا ہے،  لوگوں كو متاثر كرسكتا هے؟! ہرگز نہیں!  اس پر مستزاد ہم بضد ہیں کہ یہی اسلام پوری دنیا کو هر حال ميں لینا پڑے گا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنی مدد آپ کئے بنا اللہ ہماری مدد نہیں کرے گا۔ کسی مہدی کو آواز دینا، محمد بن قاسم کو پکارنا، وا معتصماہ کی چیخ سے در ودیوار کو ہلا دینا، آج ہماری بے تکی حقیقت بن گئی ہے۔ دنیا ہم سے ہمارے قول وکردار سے ہمارے اخلاق وگفتار سے بد ظن ہے، تو اس کے ذمہ دار خود ہم ہیں۔ اس کا ازالہ ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ همارے  كچھ بد خواه جو بوجوه دنيا كو عمدا هم سے بد ظن كرانے والے هيں، وه بهت تھوڑے هيں۔ اور  یقینا وہ خود دم توڑ دیں گے جب ہم پٹری پر آ جائیں گے۔
اب آتے ہیں خلافت اسلامیہ پر، تو سب سے پہلے ہمیں اپنے خواب سے بیدار ہونا چاہئے۔ قرن اول کے بعد مہدی سے قبل کوئی خلافت قائم نہیں ہونے جا رہی۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنے بعد  کے ابتدائی تیس سال خلافت کی پیش گوئی فرمائی تھی۔  اواخر الزمان مہدی کے دور میں اس خلافت کی واپسی ہوگی اس کی بھی دلیلیں موجود ہیں۔ اس درمیان ہم سہانے سپنے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مذهبي كارڈ كھيل كر امت كو موركھ بنانا نيا نهيں هے۔ البته اب تك اسلاف كي سنهري تاريخ سنا كر بيوقوف بنايا جاتا تھا۔ اب دكھايا جائے گا۔ طريقه نيا هے۔
رہا مسئلہ ترکيا  کا تو وہاں بھی دنیا كے ديگر ممالك کی طرح نشیب وفراز آئے ہیں۔ امت اسلاميه كے لئے کچھ اچھی اور بهت سي بری یادیں وابستہ ہیں۔ آئندہ بھی یہی رہے گا۔  مگر یہ سوچنا کہ سنه 2023 ء  آتے ہی ترکیا کے لائسنس یافتہ قحبہ خانے مصلیات بن جائیں گے۔ بیئر بار ہوٹلز حلقات تحفیظ القرآن میں تبدیل ہو جائیں گے۔ جوے اور سٹوں کے اڈے مدارس ومعاہد اور تعلیمی آماجگاہ بن جائیں گے۔ تھیئٹر اور سنیما ہالز قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں سے گونج اٹھیں گے۔ ہر سو مراکز دینیہ کا قیام ہی قیام ہوگا۔ ہر سمت تسبیح و تہلیل کی آوازیں ہوں گی۔ مٹی بھی اوراد ووظائف ميں محو هوگي۔هواؤں ميں جنت كي ترنگ هوگي۔ آسمان والے همسايه بن جائيں گے۔ آسمان كے دروازے كھل جائيں گے۔ اور هم سب كا آنا جانا هوا كرے گا۔  فرشتے آئیں گے اور لوگوں کو جھک جھک کر سلام کریں گے۔ پوری دنیا دہشت زدہ ہو جائے گی۔ کفار ویہود، نصاری وہنود اور دین بے زار سبھی چاہیں نا چا ہیں یکلخت سجدے میں گر جائیں گے۔  
تو ذرا رکئے، اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا مارئے، اور سنئے ...
ترکیا ایک یورپی یونین ممبر ملک ہے۔ اس کی پابندی ختم ہوتے ہی 2023 ء  سے ممكنه طور پر وہ اپنے ملك كي هر ترقياتي پهلوؤں كا جائزه لے گا۔ سياسي واقتصادي اور دفاعي امور پر خاصي توجه هوگي۔ عالمي تجارتي معاملات پر بھي ممکن ہے زوروں سے کام شروع هو۔ انتخابات كے مواسم آ جائيں تو سماجي معاملات هائي لائٹ كئے جائيں گے۔  جب جب لوگوں ميں مذهبي رجحان كي لهر اٹھے گي تب تب دينيات پر بڑي بڑي بيان بازياں هوں گي۔ مگر سب سے زیادہ زور یورپی یونین میں اپنی پیٹھ بنانے پر صرف ہوگا۔ اور اس کے لئے سستے میں حاصل ہونے والا عالم اسلام کا بیک گراؤنڈ (بذريعه مذهبي كارڈ مثلا ارطغرل وغيره) بڑا کام آنے والا ہے۔ لہذا دینی جذبات وحمیت کو ابھی سے ابھارا جا رہا ہے۔ یہ سیریل اسی کی ایک کڑی ہے اور کچھ نہیں۔ سبحان الله !  اسلامی خلافت کی شروعات ترک نازنینوں كے برہنہ چہروں سے؟!  خلافت اسلاميه كي تاسيس کرد حسیناؤں کے لائم لائٹ نازوں اداؤں پر؟!!! حیرت ہے۔ اور اس سے زیادہ حیرت ہمارے عقل وفہم پر ہے۔
يقينا الله سے حسن ظن اور سوچ مثبت هوني چاهئے۔ مگر اس ميں اور حماقت ميں فرق هے۔ جو بوئيں گے وهي كاٹيں گے۔ اگر بويا هي نهيں تو سوچ كو كھينچ تان كر جتني مثبت بنا ليں  كيا خاك كاٹيں گے۔ انسان كو وهي ملتا  هے جس كي اس نے سعي كي هوتي هے۔ سنه 2023ء كوئي خرافاتي مذهبي دن رام نومي نهيں كه راون كا قتل هو گيا اور رام راج استھاپت هو گيا۔ دنيا  گلوبلائز كے ساتھ ساتھ ڈيجٹلائز بھي هو رهي هے۔ مگر امت اسلاميه ايسي گلوبلائز هو جائے كه كرۀ ارضي كے هر خطے سے تركيا پهونچ كر   خلافت كي تاسيس ميں حصه لينے لگے!!! بهت دور كا تكا هے۔ مذاق بھي وه كيجئے جو سمجھ ميں آئے۔
پھر بعض مسلم مخالفين اس سيريل كو خطرناك كيوں بتا رهے هيں۔ كيا يه سنه 2023 ء ميں تركي كے بائيكاٹ معاهده كا خاتمه اور اس كے بعد قائم هونے والي متوقع اسلامي خلافت كے تناظر ميں نهيں هے؟!
تو لگے هاتھوں يه بھي سن ليجئے۔ آج كي دنيا مصلحت پرست هے۔ مذهب كے نام پر كچھ لوگ كيا كچھ كھا پي رهے هيں۔ مگر آج تك كسي نے ان كے خلاف كچھ  بولا؟! نهيں نا ؟!  كيوں كه في الحال يه موضوع ان كے لئے نقصانده هے نه  نفع بخش هے ۔ پھر كوئي  گناه بے لذت كيوں كرے؟    اس مكروه عمل كو كئي سنجيده لوگ دل سے نا پسند  كرتے هيں۔ مگر ان كا مفاد جڑا هے اس لئے اس كي مخالفت ميں وه اپني زبان نهيں كھولتے۔  جس دن ان كے مفاد كے آڑے آئے گا اس دن اس كي دھجياں بكھيريں گے۔ اور جس دن ان كے حق ميں ثابت هوگا۔ اس روز دنيا كے سامنے كھا پي كر بھي دكھائيں گے۔ تو سب سے بڑي چيز هے مصلحت۔ يهي دور حاضر كا دين هے دھرم هے مذهب هے ملت هے اور بهت سوں كا خدا بھي يهي هے۔  اس ميں -  الا ما شاء الله  -  ساري قوميں اور سبھي حكومتيں يكساں هيں۔ منسوب خواه اسلام كي جانب هوں يا يهود وهنود كي جانب۔  يه تابوت كي آخري كيل هے۔
كوئي كهه سكتا هے كه الا ما شاء الله ميں سے اردوگان هے۔ آپ كے منه ميں گھي شكر ميں دعاء كروں گا كه آپ كي يه بات الله سبحانه پوري كر دے۔ بالفرض ايسا هوا تو بھي  كمال پاشا يا   اتا ترك كي راه روكنے كے لئے اردوگان كو كتني عمر ملے گي؟!
بھائي! سيدھي سي بات هے۔ شريعت كو نافذ كرنا حكمراں كا اپنے پيروں كو كلهاڑي مارنا هے۔ كيوں كه آج كے دور ميں مفاد پرست هي انتهائي خلوص كے ساتھ حصول كرسي كے لئے كچھ بھي كر گزرتا هے۔ اور وهي كرسي تك پهونچتا هے۔ اور جب كرسي حاصل كر ليتا هے۔ تو اس كے بے راه رو مفاد كے آڑے شريعت هي آتي هے۔   كيا ايسے ميں شريعت كے حدود اربعه كو وه  اپنے لئے رحمت سمجھے گا؟!    جو اپنے مفاد كا نهيں  بلكه شريعت كا سچا طلبگار هوگا۔ وه كبھي كرسي تك پهونچ هي نهيں سكے گا۔ كيوں كه كرسي اسلامي هو يا يهودي، اس تك پهونچنے كے لئے "آگ  كا دريا هے اور تير كے جانا هے"  يهي آج كي حقيقت هے۔

 


خاكسار
عبد الله الكافي المحمدي
محافظه تيماء منطقه تبوك سعودي عرب